دجال

( دَجّال )
{ دَج + جال }
( عربی )

تفصیلات


دجل  دَجّال

عربی زبان سے اسم مشتق ہے ثلاثی مجرد کے باب از مضاعف سے اسم مبالغہ ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا۔، اردو میں سب سے پہلے ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : دَجّالوں [دَج + جا + لوں (و مجہول)]
١ - دھوکے باز، ملمع ساز؛ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قیامت تک بہت سے دجال پیدا ہوں گے ایک دجال قرب 'قیامت' میں پیدا ہو گا جو تشدد اور دین کی مخالفت اور بیخ کنی کی کوشش کرے گا اور کانا ہوگا لفظ دجال سے عموماً یہی دجال مراد لیتے ہیں جس کا پیدنا ہونا قیامت کی سب سے بڑی نشانیوں میں سے ہے۔
 یہ دور پر آشوب ہے دور دجال ہر قدر عزیز ہے ذلیل و پا مال      ( ١٩٧٤ء، لحن صریر، ٥٣ )
٢ - [ مجازا ]  جھوٹا، مکار
"حضورۖ کے بعد جو شخص بھی اس مقام کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا، مفتری، دجال، گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے"      ( ١٩٧٢ء، سیرت سرور عالم، ٢٠٦:١۔ )
٣ - طلا، سونا، زر، تیغ جو ہر دار۔ (فرہنگِ آصفیہ)
  • A liar
  • a great deceiver;  the false christ
  • Antichrist