صفت ذاتی
١ - داخل، جسے داخلہ مل چکا ہو یا داخل ہو چکا ہو، گھسا ہوا۔
مولا کے گوش زد جو یہ اوس کی صدا ہوئی گویا دخیل باب اجابت دعا ہوئی
( ١٧٧٥ء، دبیر، دفتر ماتم، ٦٩:٣ )
٢ - جسے کسی زبان میں اختیار یا قبول کر لیا گیا ہو، دوسری زبانوں سے کسی زبان میں شامل الفاظ۔
"زبان کے عام الفاظ . دخیل اور دوسری زبانوں سے مستعار ہو سکتے ہیں"
( ١٩٦٤ء، زبان کا مطالعہ، ٤٤ )
٣ - اثرو نفوذ رکھنے والا، اثر انداز۔
"اس محبت میں بچی کا عورت پن کچھ زیادہ دخیل نہیں"
( ١٩٣٦ء، راشدالخیری، نالہ زار، ٣٥ )
٤ - عمل دخل رکھنے والا؛ روک ٹوک یا تبدیلی کا اختیار رکھنے والا صاحب اختیار، اثر والا۔
"ہٹلر ہندوستان کے سیاہ و سفید میں اتنا دخیل کس طرح ہو گیا"
( ١٩٨٣ء، برش قلم، ٣٣٩ )
٥ - مزاج یا طبعیت میں دخل، رسائی یا عمل دخل رکھنے والا۔
"جو نوکر آپ کے یہاں ایسا دخیل ہے اس کو علیحدہ کر دیجئیے"
( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ١٠٨:٤ )
٦ - دخل دینے والا، دست اندازی کرنے والا، بیچ میں پڑنے والا۔
"اگر یہ دخیل نہ ہوتے لڑائیاں بگڑ جاتیں"
( ١٩٠١ء، طلسم نوخیز جمشیدی، ٤٩٠:٢ )
٧ - داخلہ۔
دو اذن دخیل اے حرم سید بطحا جا کر کہا زہرا نے کہ بے ہوش ہیں بابا
( ١٨٧٥ء، دبیر، دفتر ماتم، ١٩:١ )
٨ - [ عروض ] وہ حرف جو صرف روی اور الف تاسیس کے درمیان ہو جیسے مشاغل اور فاضل میں غ اور ض۔
رکن کامل ۔ میں ہو جو ۔ وقص ۔ دخیل دور ہو جائے حرف تائے ثقیل
( ١٨٧٨ء، بحر لکھنوی، قواعد العروض، ٦٠ )
٩ - جس کا تصرف اور قبضہ ہو، قابض اور متصرف۔
"صوبہ نابور کا ایک باشندہ . محض اہل رومہ کے کاشت کار کی حیثیت سے زمین پر دخیل ہوتا"
( ١٩٢٩ء، تاریخ سلطنت رومہ (ترجمہ)، ١٠٩ )
١٠ - مہمان؛ بے تکلف دوست؛ ہم راز، واقف کار۔ (جامع اللغات)
١١ - شریک جرم۔ (جامع اللغات)