خوشامد

( خوشامَد )
{ خُشا (و معدولہ) + مَد }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ صفت 'خوش' کے ساتھ فارسی مصدر 'آمدن' سے فعل امر 'آمد' لگانے سے مرکب 'خوشامد' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧١٨ء کو "دیوان آبرو" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( واحد )
جمع   : خوشامَدیں [خُشا (و معدولہ) + مَدیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : خوشامَدوں [خُشا (و معدولہ) + مَدوں (و مجہول)]
١ - وہ بات منہ پر عملاً کہنا جو دوسرے کو اچھی لگے خواہ غلط ہو، جاو بے جا تعریف؛ عاجزی، فروتنی۔
"بہتر یہ ہے کہ بادشاہ سے عاجزی اور خوشامد کرو۔"      ( ١٩٣٤ء، قرآنی قصے، ٨٤ )
٢ - آؤ بھگت، خاطر مدارت؛ اصرار۔
"ہرمز اس دفع البتہ تمہاری خوشامد کرے گا اور تم کو خوش کر کے بھیجے گا۔"      ( ١٨٠٠ء، قصہ گل و ہرمز، ورق، ٣٣، الف )
٣ - منہ دیکھے کی تعریف، تحسین و ستائش۔
 ظاہر میں جو تمہاری خوشامد کرے اوسے تم اپنا دوستدار سمجھتے ہو بے شمار      ( ١٧١٨ء، دیوان آبرو، ١٢٢ )