خشکہ

( خُشْکَہ )
{ خُش + کَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے ماخوذ لفظ'خشک' کے ساتھ 'ہ' زائد لگانے سے 'خشکہ' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٥٩٣ء کو "آئین اکبری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : خُشْکے [خُش + کے]
جمع   : خُشْکے [خُش + کے]
جمع غیر ندائی   : خُشْکوں [خُش + کوں (و مجہول)]
١ - ابلے ہوئے سادہ چاول۔
"ابھی ابھی خشکہ دم پر لگایا ہے۔"      ( ١٩٦٤ء، آبلہ پا، ١٨١ )
٢ - گھوڑے کی ایک بیماری جس میں گلے کے دونوں طرف غدود نکل آتے ہیں، گھوڑا دانہ چارہ ترک کر دیتا ہے۔
 اس کو پہچان لے کہ خشکہ ہے اس مرض سے غرض وہ خستہ ہے      ( ١٨٤١ء، زینت الخیل، ٧٦ )
٣ - شئے لطیف سے عاری لوگ۔
"خدا کی پناہ یہاں تک کہ چند بالکل ہی عجیب و غریب خشکوں نے اس حصہ تحریر و کلام میں ایک نہایت ہی اچھوتی ترکیب ایجاد کر لی۔"      ( ١٩٣٣ء، زندگی (مقدمہ)، ملارموزی، ١٤ )
  • A dry pulao;  rice boiled plain without seasoning