سرکنا

( سَرَکْنا )
{ سَرَک + نا }
( پراکرت )

تفصیلات


اصلاً پراکرت زبان کا لفظ ہے اور بطور فعل مستعمل ہے۔ اردو میں پراکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور فعل استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٠٠ء کو "من لگن" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - ہٹنا، چپکے سے کھسک جانا، ٹل جانا۔
"لڑکی کی اماں اور بھائی اندر جھونپڑی میں چلے گئے تھے دوسری عورتیں بھی سرک لی تھیں"      ( ١٩٨١ء، چلتا مسافر، ٦٢ )
٢ - بھاگ، جانا، رخصت ہونا، چلتا بننا۔
"اگر ان کو یقین ہو کہ اس چیز کی قیمت ملنے والی ہے تو اگر کوئی ان کو ٹالنا بھی چاہے تو وہ ہرگز نہ سرکیں گے"      ( ١٩٢٥ء، وقار حیات، ١١٧ )
٣ - سامان وغیرہ کا نقصان ہو جانا، اٹھ جانا، چلا جانا۔
 دھڑکا ہے یہ کہیں نہ سرک جائے مال و زر خیمے میں شاہ کا ابھی جیتا ہے اک پسر      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٣٥٦:٢ )
٤ - راستے سے الگ ہونا، راستہ چھوڑنا، بچنا۔
 یہ کیا تو سرکتی سمٹتی ہے کیوں یہ بڑھنے کا موسم ہے گھٹتی ہے کیوں      ( ١٩١٠ء، قاسم و زہرہ، ٥٣ )
٥ - تاریخ، ملتوی ہونا۔
"تاریخ عربی قمری کے حساب سے رجال الغیب آٹھ سمت سرکتا ہے"      ( ١٨٨٠ء، کشاف النجوم، ٨١ )
٦ - کھسکنا، سرکنا۔
"دونوں ہاتھ سوٹ کیس اور کتابوں سے ہٹ کر آہستہ آہستہ سرک رہے تھے"      ( ١٩٨٧ء، گلی گلی کہانیاں، ٤٩ )
٧ - کپڑے وغیرہ کا اپنی جگہ سے ہٹ جانا، چڑھ جانا۔
"کمبل سرک گیا تھا اس نے بکل مار کر اپنے جسم کو پھر کمبل میں اچھی طرح لپیٹ لیا"      ( ١٩٣٩ء، زندگی نقاب چہرے، ١٢٨ )
٨ - چلنا، آگے بڑھنا، رفتار پکڑنا (کسی آلے وغیرہ کا)۔
"جو جبڑے . کے ساتھ فولادی پیمانے پر سرکتا ہے"      ( ١٩٦٥ء، طبیعیات، پال، ٤٠:١ )
  • to be moved;  to move
  • shift
  • slip
  • get out of the place;  to stir
  • budge
  • remove