تفصیلات
فارسی زبان میں اسماء 'سر' اور 'کف' کے درمیان 'ب' بطور حرف جار لگانے سے مرکب 'سربکف' بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم صفت اور گاہے بطور متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٥٢ء کو "دیوان برق" میں مستعمل ملتا ہے۔
صفت ذاتی
١ - ہتیلی پر سر رکھے ہوئے، جان دینے پر آمادہ، مرنے پر تیار۔
"وہ بائیس سال تک جس مقصد کے لیے سربکف رہیں وہ پورا ہو گیا تھا۔"
( ١٩٨٢ء، آتش چنار، ٧٠٤ )
٢ - جانبازانہ، دلیرانہ۔
"ممالک اسلامیہ کی حریت طلبی اور آزادی کے لیے سربکف کوششوں کے آثار صاف نظر آ رہے ہیں۔"
( ١٩٢٠ء، برید فرنگ، ١١٥ )