خمیرا

( خَمِیرا )
{ خَمی + را }
( عربی )

تفصیلات


خمر  خَمِیر  خَمِیرا

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بھی بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٧٤ء کو "تصویر جاناں" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : خَمِیرے [خَمی + رے]
جمع   : خَمِیرے [خَمی + رے]
جمع غیر ندائی   : خَمِیروں [خَمی + روں (و مجہول)]
١ - حقے کا خوشبودار تمباکو، خوشبودار گُڑاکُو۔
"خمیرے کی لپٹیں اٹھ رہی ہیں۔"      ( ١٩٦٢ء، ساقی، جولائی، ٤٩ )
٢ - چینی یا شکر میں قوام کی ہوئی دوا، اس کے بنانے کا یہ قاعدہ ہے کہ جو دوائیں قابل بھگونے کے ہوں رات کو گرم پانی میں بھگو دیں صبح کو جوش دے کر چھان کر شرینی ڈال کر قوام پکائیں یہاں تک کہ خوب گاڑھا ہو جائے پھر اتار لیں۔ اگر کوئی دوا نسخے میں ملانے کو لکھی ہو تو کوٹنے اور گھوٹنے سے قبل ملا دیں اور جس قدر ورق لکھے ہوں ایک ایک کر کے ڈالتے جائیں اور کفگیر سے ملاتے جائیں جس قدر زیادہ حل کئے جائیں گے بہتر ہو گا۔
"صرف حاجی صاحب کہہ کر مخاطب کرو تو چہرے سے مسکراہٹ کے آثار غائب ہو جاتے ہیں گویا تسکین قلب کے لیے الحاج، خمیرہ مروارید عنبرین کا کام دیتا ہے۔"      ( ١٩٧٦ء، مرحبا الحاج، ٢٥ )
٣ - مصری اور شکر میں پکائی ہوئی خمیری روٹی۔ (لغات سعیدی)
٤ - گوندھی ہوئی چیز، مرکب شے۔
"ایسے علاقوں میں نہ سبز چارے کو خمیرے کی شکل میں محفوظ رکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور نہ اسے سکھا کر رکھنا پڑتا ہے۔"      ( ١٩٦٦ء، چارے، ٨٢ )
  • Leaven
  • conserve (of roses or violets);  a thick syrup;  a kind of tobacco.