رندانہ

( رِنْدانَہ )
{ رِن + دا + نَہ }
( فارسی )

تفصیلات


رِنْد  رِنْدانَہ

فارسی سے اسم فاعل 'رند' کے ساتھ 'انہ' بطور لاحقہ تمیز بڑھا کر بنایا گیا ہے۔ اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ داخل ہوا۔ سب سے پہلے ١٨٠٥ء میں 'آرائش محفل' میں مستعمل ملتا ہے۔ اردو میں شاذ بطورِ اسم صفت بھی مستعمل ملتا ہے۔

متعلق فعل
١ - رِند یا رِندی سے نسبت رکھنے والا، رِند کی طرح، رِندوں کی طرح۔
 خُمخانہ معرفت کے در پر رندانہ صفی لگاؤ بستر      ( ١٩٢٨ء، تنظیم الحیات، ١ )
٢ - [ بطور صفت ]  کمینے، لُچے۔
 کہتا ہے تو کیا جاہل رندانے آدمی ہیں رندانے آدمی فرزانے آدمی ہیں      ( ١٨٩٢ء، مہتاب داغ، ٢٤٧ )
٣ - دلیرانہ، والہانہ، مستانہ۔
"وہ رندانہ قدم بڑھاتے گئے اور اُنکے بڑھتے ہوئے قدموں سے مظاہرین اور فوج میں بھگڈر مچ گئی۔"      ( ١٩٨٢ء، آتشِ چنار، ٣٦٤ )
٤ - آزادانہ، بےبا کانہ۔
"اس قسم کی زندانہ گفتگو کی عادت اُسے دیس دیس بھٹک کر پڑ گئی تھی۔"      ( ١٩٨٢ء، پچھتاوے، ١٧٩ )