سپنا

( سَپْنا )
{ سَپْ + نا }
( پراکرت )

تفصیلات


سپن  سَپْنا

پراکرت زبان کے لفظ 'سپن' کے ساتھ 'الف' زائد بطور 'تذکیر' لگانے سے 'سپنا' بنا۔ سنسکرت میں 'سوپن' مستعمل ہے۔ اردو میں پراکرت سے ماخوذ ہے عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٤ء کو حسن شوقی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : سَپْنے [سَپ + نے]
جمع   : سَپْنے [سَپ + نے]
جمع غیر ندائی   : سَپْنوں [سَپ + نوں (واؤ مجہول)]
١ - خواب، رویا۔
"سات سال کی ازدواجی زندگی اسے ایک سپنا محسوس ہوتی تھی۔"    ( ١٩٨٣ء، ساتواں چراغ، ١٠٧ )
٢ - خیال، تصور۔
"رات کے خواب، نظر کے فریب (اوہام) بیداری کے سپنے (خیالی پلاؤ) . ہمارے تجربے میں ہر چیز صرف خارج سے نہیں آتی۔"    ( ١٩٥٦ء، تعارف فلسفۂ جدید، ١٣ )
١ - سپنا بننا
خواب دیکھنا، خوابیدہ فضا میں رہنا، خواہش رکھنا، آرزو کرنا۔ ان کے آنے کی کل سے خبریں سن کے پھرتی ہے نظر نظر میں سپنے بن کے      ( ١٩٧٦ء، جان نثار اختر، گھر آنکن، ٢٣ )
٢ - سپنا ٹوٹنا
نیند ختم ہونا، خواب ٹوٹنا، خواہش پوری نہ ہونا۔ وقت گیا وہ سپنا ٹوٹا کون کہیں سے لائے پھول کمرے کے سونے گلدانوں میں اب کون سجائے پھول      ( ١٩٦٩ء، سخن، ٧٧ )
  • sleep;  dreaming
  • a dream
  • vision