رنگ باز

( رَنْگ باز )
{ رَنْگ (ن غنہ) + باز }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی اسم 'رنگ' کے ساتھ فارسی مصدر 'باختن' سے فعل امر 'باز' بطور لاحقہ صفت لگا کر مرکب کیا گیا ہے اردو میں بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٨٩٧ء میں "طلسم ہفت پیکر" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
جمع غیر ندائی   : رَنْگ بازوں [رَنْگ (ن غنہ) + با + زوں (و مجہول)]
١ - جھوٹا، تقدس ظاہر کرکے لوگوں پر اپنی دھاک بٹھانے والا، وہ شخص جو بڑا جعلیا مگر ظاہر میں شریف ہو۔
"میں تو ایک رنگباز آدمی ہوں آج قلم کی ندیاں بہہ رہی ہیں کل خشک پڑی ہیں۔"      ( ١٩٤٠ء، آغا شاعر قزلباش، خمارستان، ٧٦ )
٢ - جواری، جوا کھیلنے والا۔
"حضور ہم تو رنگ باز ہیں جب رنگ کا وقت ہمارے آتا ہے جان تک بد دیتے ہیں۔"      ( ١٨٩٧ء، طلسمِ ہفت پیکر )