رواں دواں

( رَواں دَواں )
{ رَواں + دَواں }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی میں رفتن مصدر سے مشتق اسم صفت 'رواں' کے ساتھ 'دواں' بطور تابع مہمل ملا کر مرکب بنایا گیا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٣٦ء میں "ریاض البحر" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - منہمک، مشغول و مصروف، کوشاں۔
"مغرب میں جدید ادیبوں کی عمریں ستر اور اسی سال سے تجاوز کر چکی ہیں مگر وہ جدید سے جدید تر کے سفر پر اب بھی رواں دواں ہیں"      ( ١٩٨٨ء، افکار، جون، ١٢ )
٢ - منشتر، پریشاں، سرگرداں۔
"ریت کے رواں دواں بادل پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔"      ( ١٩٨٧ء، قومی زبان، کراچی، دسمبر، ٢٤ )
٣ - [ متعلق فعل ]  دوڑ کر، بھاگا بھاک، تیز تیز۔
 رواں دواں لئے جاتی ہے آرزوئے وصال کشاں کشاں ترے نزدیک آئے جاتے ہیں      ( ١٩٣٤ء، شعلۂ طور، ٣٢ )
٤ - لشتم پشتم، جوں توں، جیسے تیسے۔
"اپریل کا مہینہ تو رواں دواں گزر ہی جائے گا۔"      ( ١٩٥١ء، زیرِ لب، ١٦٩ )
٥ - پسندیدہ، مروج۔
"بدلہ، پشتو لوگ گیت کی مقبول رواں دواں صنفِ سخن ہے۔"      ( ١٩٨٢ء، پٹھانوں کے رسم و رواج، ١٢٧ )
٦ - برجستہ، سلیس، سیدھے سادے۔
"نہ جانے کس ملائے مکتبی نے میرے رواں دواں جملے بدل ڈالے۔"      ( ١٩٨٤ء، کیا قافلہ جاتا ہے، ٥٧ )
  • دَوڑْتا
  • بھاگْتا
  • سَلِیس