خود فریبی

( خود فَریبی )
{ خُد (واؤ معدولہ) + فَرے + بی }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ لفظ 'خود' کے ساتھ فارسی اسم 'فریب' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے مرکب 'خود فریبی' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٩١ء کو "قصہ حاجی بابا اصفہانی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - اپنے آپ کو دھوکا دینا، خود اپنے کو غلط فہمی میں مبتلا کرنے کا عمل۔
"اسے بھی خود فریبی کا ایک بہانہ کہیئے ورنہ یہ حقیقت بہر حال اپنی جگہ ایک المیہ ہے کہ معاشی و سائل کے بہ آسانی بہم نہ ہونے کی وجہ سے کتنی ہی شخصیتیں ادھوری رہ جاتی ہیں۔"      ( ١٩٨١ء، تشنگی کا سفر، ١٢ )