خیال آفرینی

( خَیال آفْرِینی )
{ خَیال + آف + ری + نی }

تفصیلات


عربی زبان سے مشتق اسم 'خیال' کے ساتھ فارسی مصدر 'آفریدن' سے صیغہ امر 'آفرین' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے مرکب 'خیال آفرینی' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٩٢٦ء کو "شرر، گزشتہ لکھنو" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( واحد )
١ - فکر یا سوچ کے نئے زاویے نکالنے یا کسی بات میں کوئی نیا نکتہ پیدا کرنے کا عمل، خیال افروزی، تخلیقِ خیال۔
"مذاق اور گفتگو میں طرح طرح کی خیال آفرینیاں ہوتی تھیں۔"      ( ١٩٢٦ء، شرر، گزشتہ لکھنو، ١٩٢ )