خون بہا

( خُون بَہا )
{ خُون + بَہا }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'خون' کے ساتھ فارسی ہی سے ماخوذ اسم 'بہا' لگانے سے مرکب 'خون بہا' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٦٤٩ء کو "خاورنامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - جان کا معاوضہ، وہ نقدی جو مقتول کے وارث اس کے عوض میں لیں، دیت۔
 مالک ہر دو جہاں، اس کی خبر ہے تجھے میرے شہیدوں کا ہے خاکِ وطن خون بہا      ( ١٩٨٤ء، سمندر، ١٨ )
٢ - [ کنایۃ ]  بدلہ، قصاص۔
 کر چکا ہوں شدتِ حرماں سے تنگ آ کر معاف ہر فرو مایہ کو اپنا خون بہا تیرے لیے      ( ١٩٣٣ء، سیف و سبو، ١٩٧ )
٣ - [ مجازا ]  شراب کی بوتل یا مینا کی قیمت؛ معاوضہ، جرمانہ۔
"تقریباً تمام غزلوں کو کاٹ دیا . میں نے اپنی جمع کی ہوئی پونجی کا خون بہا طلب کیا تو کچھ نئی غزلیں وجود میں آئیں۔"      ( ١٩٥٨ء، فکر جمیل (پیش لفظ)، ٩ )
  • The price of blood
  • blood-money
  • a fine for bloor-shedding.