شکستہ حال

( شِکَسْتَہ حال )
{ شِکَس + تَہ + حال }

تفصیلات


فارسی سے ماخوذ صفت 'شکستہ' کے ساتھ عربی اسم کیفیت 'حال' بطور موصوف ملنے سے مرکب توصیفی بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٨٨٣ء کو "دربارِ اکبری" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - پریشان، خستہ حال۔
 اجل نے گھیر لیا ہو تو راہ کیسے ملے شکستہ حالوں کو آخر پناہ کیسے ملے      ( ١٩٨٤ء، سمندر، ١٨٥ )
  • بے چارہ
  • بے کَس