آندھی

( آنْدھی )
{ آں + دھی }
( سنسکرت )

تفصیلات


آنْدھ  آندھ  آنْدھی

سنسکرت زبان میں اصل لفظ 'آندھ' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ تانیث لگانے سے 'آندھی' بنا۔ اردو زبان میں بطور اسم اور گاہے بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٥٣٠ء میں "بابرنامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مؤنث - واحد )
جمع   : آنْدِھیاں [آں + دِھیاں]
جمع غیر ندائی   : آنْدِھیوں [آں + دِھیوں (واؤ مجہول)]
١ - بہت چست و چالاک، تند و تیز (انسان یا کوئی اور جاندار چیز)۔
"کچھ عرب ہی والے خوب لونڈی غلام رکھتے ہیں، اپنے برابر کھلائیں، پہنائیں، بٹھائیں، بھلا یہاں کہاں، یہاں کام لینے کو آندھی ہیں، باقی روکھی سوکھی جو ملی وہ حوالے کی۔"      ( ١٩١٥ء، سجاد حسین، طرحدار لونڈی، ٣ )
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : آنْدِھیاں [آں + دِھیاں]
جمع غیر ندائی   : آنْدِھیوں [آں + دِھیوں (واؤ مجہول)]
١ - گرد و غبار کے ساتھ بہت تیز ہوا، طوفان باد۔
 کدھر ہے اے موت? آ، کہ غم سے لبوں پر اب جان آ رہی ہے وہ شمع، جو یادگار شب تھی، اسے بھی آندھی بجا رہی ہے      ( ١٩٢٤ء، نقش و نگار، ١٤٤ )
٢ - اندھیرا، تاریکی۔
"ایک ایک چیز ڈھونڈنے آندھی روگ آ گیا۔"      ( ١٩١٥ء، سجاد حسین، طرحدار لونڈی، ١٠٦ )
  • جَھکَّڑْ
  • مُسْتعِدْ
١ - آندھی چڑھنا
 طبیعت کوئی دن میں بھر جائے گی چڑھی ہے یہ آندھی اتر جائے گی      ( ١٨٧٨ء، گلزار داغ، ١٩٥ )
٢ - آندھی کاٹنا
اوپر منہ اٹھا کر آیات وغیرہ پڑھنا اور انگلی سے آندھی روکنے کا اشارہ کرنا۔ (ماخوذ : نوراللغات، ١٤٦:١)
٣ - آندھی اترنا
طوفان باد کا زور کم ہونا، تیز اور غبار آلود ہواءوں کا رکنا۔ طبیعت کوئی دن میں بھر جائے گی چڑھی ہے یہ آندھی اتر جائے گی      ( ١٨٧٨ء، گلزار داغ، ١٩٥ )
٤ - آندھی اٹھانا
آندھی اٹھنا کا تعدیہ ہے۔ آندھی اٹھائی نوح کا طوفاں دکھا دیا ہیں تنگ آہ سرد سے اور چشم تر سے ہم      ( ١٨٧٨ء، آغا، دیوان، ٦٧ )
٥ - آندھی اٹھنا
طوفان باد کا آنا، تیز اور غبار آلود ہواءوں کا چھانا۔ اٹھیں گی آندھیاں غم کی جو ذرہ بھی رہا باقی زمین دشت غربت خاک میری سب اڑا دینا      ( ١٩١٠ء، گلکدہ، عزیز، ٢١ )
١ - آندھی آئے بیٹھ جائے، مینہ آئے بھاگ جائے
تھوڑی سی تکلیف جسے جھیل سکے تو جھیل لے اور زیادہ ہو تو الگ ہو جائے۔ (امیراللغات، ١٨:١)