دروازہ

( دَرْوازَہ )
{ دَر + وا + زَہ }
( فارسی )

تفصیلات


دَر  دَرْوازَہ

فارسی زبان سے اسم مصدر ہے۔ فارسی اسم 'در' کے ساتھ 'واز' یاا 'باز' بمعنی کھلا ہوا، لگا کر 'ہ' بطور لاحقۂ اسمیت لگائی گئی ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٤٢١ء کو "معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : دَرْوازے [دَر + وا + زے]
جمع   : دَرْوازے [دَر + وا + زے]
جمع غیر ندائی   : دَرْوازوں [دَر + وا + زوں (و مجہول)]
١ - چوکھٹ اور کواڑ نیز آمدورفت کا وہ کھلا ہوا حصہ جہاں چوکھٹ اور کواڑ لگائے جاتے ہیں، در۔
 دروازۂ دل ہے سرود بستہ زنجیر صلیب بن گئی ہے    ( ١٩٨٣ء، برش قلم، ١٢٩ )
٢ - بڑا دروازہ، پھاٹک۔
 محصور ادھر سے قلعے کا دروزاہ کھول کر طوفان بے پناہ کی صورت ہوئے دو چار
٣ - چوکھٹ، آستانہ یا باہر کی طرف کا چوکھٹ سے متصل حصہ۔
"دروازہ بائیں دیوار میں جس پر پردہ پڑا ہے۔"      ( ١٩٧٥ء، خاک نشین، ١١٦ )
  • A door