دریچہ

( دَرِیْچَہ )
{ دَری + چَہ }
( فارسی )

تفصیلات


دَر  دَرِیْچَہ

فارسی زبان سے اسم جامد 'در' سے 'دری' ماخوذ ہے جس کے آخر پر 'چہ' بطور لاحقۂ تسغیر لگایا گیا ہے۔ اردو میں ١٦٣٩ء کو "طوطی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم تصغیر ( مذکر - واحد )
جمع   : دَرِیچے [دَری + چے]
جمع غیر ندائی   : دَرِیچوں [دَری + چوں (و مجہول)]
١ - کھڑکی، چھوٹا دروازہ، موکھا۔
 خلوت کی فضا میں دھیرے دھیرے نشوں کے دریچے کھل رہے تھے      ( ١٩٨٤ء، سمندر، ٤٨ )
٢ - چھوٹا دریا بغیر پٹ کا چھوٹا دروازہ۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 128:1)