شل

( شَل )
{ شَل }
( عربی )

تفصیلات


شلل  شَل

عربی میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں بعینہ داخل ہوا اور بطور صفت گا ہے بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٧٠٧ء کو "کلیاتِ ولی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - [ دھلائی پارچہ ]  شکن، سلوٹ، چنٹ، کپڑے کی سطح کی ہمواری کے بگاڑ کے نشان۔
"اوپر سے صفائی کے ساتھ کندھوں پر سی دی جائے اور نیچے خوب تان کر اور شل نکال کر عجان (سیون) پر ٹانک دیا جائے۔"      ( ١٩٤١ء، جبیریات، ١٣٤ )
صفت ذاتی
١ - پورا جسم یا جسم کا کوئی عضو (ہاتھ پانو وغیرہ) جو کسی عارضے کی وجہ سے سوکھ گیا ہو یا بے حس و حرکت ہو گیا ہو، مفلوج، لنجا، اپاہج، مفلوج آدمی۔
"شل . کے معنی سوکھے ہوئے اور بیکار شدہ کے ہیں۔"    ( ١٩٦٨ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ١٥:٣ )
٢ - [ کنایۃ ] بے بس، تھکاہوا، بے جان، سست، نڈھال (محنت یا مسافت کی وجہ سے)۔
"اس پتھر کو تراشتے تراشتے میری ہمت کے بازو شل ہو گئے تھے۔"    ( ١٩٧٩ء، ریت کی دیوار، ٢٧ )
٣ - [ کنایۃ ] بے کار، جذبات سے عاری (دل وغیرہ)۔
"تیس برس تک اسکا دل شَل رہا تھا۔"    ( ١٩٨٨ء، نشیب، ٢٠٩ )
٤ - ایک قسم کا رنگین یا داغدار چمڑا جو جوتے یا زین کے نیچے سیا جاتا ہے؛ نرم، پلپلا؛ ڈھیلا ڈھالا (پلیٹس)۔