سلونی

( سَلونی )
{ سَلونی (و مجہول) }
( پراکرت )

تفصیلات


سَلون  سَلونی

پراکرت زبان سے ماخوذ 'سلون' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ تانیث لگانے سے 'سلونی' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو حسن شوقی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جنسِ مخالف   : سَلونا [سَلو (واؤ مجہول) + نا]
جمع   : سَلونِیاں [سَلو + نِیاں]
جمع غیر ندائی   : سَلونِیوں [سَلو (و مجہول) + نِیوں (و مجہول)]
١ - ملیح، دلکش، خوبصورت، گندمی رنگت والی۔
"ماہ رخوں کی ناشکری اور سلونیوں کی نمک حرامی ہو گی۔"      ( ١٩٧٠ء، یادوں کی برات، ٢٩ )
٢ - خوشگوار، دل لبھانے والی، دلچسپ (عموماً شام، موسم وغیرہ)۔
"میں نے پھر ایک باران سلونی شاموں کو آواز دی۔"      ( ١٩٣٣ء، سیف و سبو، ١٥ )
٣ - نمکین، مزیدار، چٹ پٹی۔
 کیا غوطہ زن نے آپکے پھرتی دکھائی تھی جب اک سلونی مچھلی چھدی ہک میں آئی تھی      ( ١٩٨٤ء، قہر عشق، ١٤٣ )
  • beautiful
  • handsome;  dark-complexioned
  • nut-brown (complexion)
  • expressive (countenance)