سماں[1]

( سَماں[1] )
{ سَماں }
( سنسکرت )

تفصیلات


سَمے  سَماں

سنسکرت زبان کے لفظ 'سمے' سے ماخوذ ہے اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم مستعمل ہے ١٧٨٠ء کو "کلیات سودا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم ظرف زماں ( مذکر - واحد )
١ - وقت، زمانہ، دور۔
"اوسط طبقہ اور نچلا طبقہ نسبتاً بہت مطمئن تھا، تھوڑا کھاتے تھے اور سکھی رہتے تھے سستا سماں تھا۔"      ( ١٩٧٠ء، تاثرات، ٢٩٦ )
٢ - رت، موسم۔
"اگر برسات کا سماں ہو تو اینٹوں کے میدان میں بانس کے سبک فریم تیار ہیں۔"      ( ١٩٤٨ء، اشیائے تعمیر (ترجمہ)، ٣٦ )
٣ - عالم، کیفیت، حالت۔
"یہ موت کے بعد کا سماں ہو گا، جس کو برزخ کا عالم کہتے ہیں۔"      ( ١٩٣٢ء، سیرۃ النبیۖ، ٦٥٥:٤ )
٤ - نظارہ، منظر۔
"مجھے ان کی روانگی کا منظر دیکھ کر ان کی آمد کا سماں یاد آگیا۔"      ( ١٩٧٧ء، میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا، ١١٦ )
٥ - اچھی فصل، ارزانی، فراوانی کا زمانہ (کال کی ضد)۔
"حضرت یوسفؑ نے اس کے خواب کی صحیح تعبیر بتائی اور کہاں کہ سات برس تک ملک میں سماں رہے گا۔"      ( ١٩٢٨ء، سلیم (وحید الدین)، افادات سلیم، ١١٧ )
٦ - رونق، بہار، چہل پہل۔
"اسٹیشن بڑا بارونق تھا اور جب سواری گاڑیوں کی آمدو رفت ہوتی تو اور بھی پر لطف سماں ہوتا۔      ( ١٩٨٢ء، مری زندگی فسانہ، ٧٢ )
٧ - راگ رنگ کا مزہ۔
 راگ اس کا یہ کچھ سماں لایا چشم گردوں میں اشک بھر آیا      ( ١٧٩١ء، حسرت لکھنوی، طوطی نامہ، ١٣٣ )
٨ - موقع، محل۔
"چناپا۔ کریم بیگ جی۔ ابھی اس تعریف کا سماں نہیں۔"      ( ١٩٢٤ء، پنجاب میل، ٥٧ )
٩ - ہم آہنگی، تال میل، موافقت، اتفاق، سال، برس، سمبت۔ (فرہنگ آصفیہ)
  • time
  • season;  season of plenty;  state
  • condition;  scene
  • landscape
  • view