روز مرہ

( روز مَرَّہ )
{ روز (واؤ مجہول) + مَر + رَہ }

تفصیلات


فارسی اسم 'روز' کو عربی سے مشتق اسمِ صفت 'مرَّہ' کے ساتھ ملا کر مرکب توصیفی بنایا گیا ہے اور اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٠٢ء میں "باغ و بہار" میں مستعمل ملتا ہے۔ (اردو میں بطور صفت نیز بطور متعلق فعل میں مستعمل ہے)۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - ہر روز، آئے دن، ہر وقت۔
"یہ اس کا روز مرّہ کا معمول تھا۔"      ( ١٩٨٣ء، ساتواں چراغ، ١٢ )
٢ - بول چال، روزانہ کی عام بات چیت کا اسلوب۔
"اس کے (جعفر زٹلی) روز مرّہ اور اندازِ بیان کا رنگ جدا ہے۔"      ( ١٩٤٦ء، مقالاتِ شیرانی، ١١٨ )
٣ - [ قواعد ]  جملے یا الفاظ کی ترتیب جو اہل زبان کے طریق استعمال کے مطابق ہو اور جسکے خلاف فصاحت کے خلاف ہو مثلاً پان سات پر قیاس کر کے چھ آٹھ یا آٹھ چھ بولا جائے تو تو روز مرّہ کے خلاف ہو گا اسی طرح بلاناغہ کی جگہ بے ناغہ اور روز روز کی جگہ دن دن یا آئے دن کی جگہ آئے روز کہنا خلاف روزمرّہ ہے۔ کیونکہ اہلِ زبان اس طرح نہیں بولتے۔
"دبستانِ دہلی کے ایک اور نامور فاضل مولوی نذیر احمد خاں . نے اپنی کتابوں دہلی کی ٹھیٹھ بیگماتی زبان اور روزمرّہ کا استعمال کیا ہے۔"      ( ١٩٤٣ء، مقالاتِ عبدالقادر )
٤ - روزانہ کا معمول، عام بات۔
"ہندو دیو مالا کی دیوی دیوتا اور بھجن ہندوستان کے باسی کے لیے روزمرّہ ہیں۔"      ( ١٩٨٤ء، زمین اور فلک اور، ٣٠ )
متعلق فعل
١ - روزانہ، ہرروز، بلا ناغہ۔
"ایک آدمی روزمرہ ڈاک لینے جایا کرتا تھا۔"      ( ١٩٢٢ء، گوشۂ عافیت، ٢٤٣ )
صفت نسبتی
١ - عام، ہر روزکا، روزانہ کا، معمول کا۔
"ہم اپنی روز مرہ زندگی میں بہت سے قدرتی مظاہر کا مشاہدہ کرتے ہیں۔"      ( ١٩٦٥ء، طبیعیات، ١ )
  • daily
  • everyday
  • always