روشن ضمیر

( رَوشَن ضَمِیر )
{ رَو (واؤ لین) + شَن + ضَمِیر }

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسمِ صفت 'روشن' کے ساتھ عربی سے مشتق اسم 'ضمیر' ملا کر مرکب توصیفی بنایا گیا ہے اور اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٨٠ء میں "آب حیات" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( واحد )
١ - زودفہم، ذکی، صاحب عقل و فکر؛ جو دوسروں کے دل کی بات سمجھ جائے، صوفی صافی۔
"ایک شخص ابو عبدالرحمٰن ابنِ طاہر تھا یہ بڑا دولتمند تھا بڑا عاقل اور روشن ضمیر تھا۔"      ( ١٩٣٥ء، عبرت نامۂ اُندلُس (ترجمہ)، ١٠٨٩ )
٢ - صاحبِ کشف و کرامات، صاحبِ حال، عارف۔
 ہے اندھیری غار میں ایک راہبِ روشن ضمیر یاعا کی ظلمتوں میں نور گستر کا نگڑی      ( ١٩٣٧ء، نغمۂ فردوس، ١٤٢:١ )