روکڑ

( روکَڑ )
{ رو (و مجہول) + کَڑ }
( سنسکرت )

تفصیلات


روک  روکَڑ

سنسکرت سے ماخوذ اسم 'روک' کے آگے 'ڑ' بطور لاحقہ نسبت لگانے سے بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٣٦ء میں "ریاض البحر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - نقد روپیہ پیسا۔
 بینوں کا اُلَٹ دیا ہے تَپّڑ روکڑ ہے نہ جنس ہے نہ مایا      ( ١٩١١ء، کلیات اسمٰعیل، ٢٢٩ )
٢ - سونا چاندی، زیورات؛ دھن دولت۔
"میکے سے بھی تم کوئی روکڑ نہیں لاتی ہو۔"      ( ١٩٢٢ء، گوشۂ عافیت )
٣ - نقد بِکری۔
"اسٹیشن والی سڑک پر بیٹھا برف تول رہا تھا، روکڑ کے پیسوں پہ جَپّھا مارکے بھاگا تو اس کی دھول تک مجھے نہ ملی۔"      ( ١٩٣١ء، روحِ لطافت، ١١٠ )
٤ - کوئی چیز جو نقد روپے کے طور پر مستعمل ہوسکے جیسے ہُنڈی وغیرہ۔
"یہ روپیہ قرض لے کے بھیجے ہیں . یہ ہنڈوی روکڑ ہے چوک میں گنگا دین اور شیو دین مہاجنوں کی دکان سے لینا۔"      ( ١٨٨٦ء، انشائے سرور، ٨٤ )
٥ - روکڑ بہی۔
"اردو ہندی میں روکڑ، روکڑ بہی، روکڑ کھاتا کہتے ہیں اور یہ نقدی کی کتاب کہلاتی ہے۔"      ( ١٩٦٨ء، اردو نامہ، کراچی، جنوری، ٢٠ )
٦ - حساب کتاب، جائزہ۔
 ہوئی جب جنوری روکڑ کی طالب رپٹ لکھوا گیا تومی محاسب      ( ١٩٢١ء، کلیات اکبر، ٤١٥:٣ )