روکھا پھیکا

( رُوکھا پِھیکا )
{ رُو + کھا + پھی + کا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت سے ماخوذ اسم صفت کو اسی زبان سے ماخوذ اسم صفت 'پھیکا' کے ساتھ ملا کر مرکب بنایا گیا ہے۔ اردو میں بھی بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨١٣ء میں "کلیاتِ پروانہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - بے مزہ، بے لطف، بے کیف۔
"کیا روکھا پھیکا طرزِ خطابت ہے۔"      ( ١٩٥٤ء، شاید کہ بہار آئی، ١٦٥ )
٢ - بدمزاج، بے مروت، خشک۔
"پولیس آفس میں جہاں جہاں اینٹری کرانے خود جانا پڑا پولیس والے روکھے پھیکے ہی نظر آئے۔"      ( ١٩٨٠ء، زمین اور فلک اور، ٧٧ )
٣ - جس شخص کی طبعیت میں رنگینی اور نرمی ہو، خشک مزاج، بدذوق۔
"کتنے روکھے پھیکے لوگ ہو شراب پلائی اور کباب ندارد۔"
٤ - سادہ یا معمولی کھانا، کم نمک مرچ کا کھانا۔
"کھانا شروع ہوا تو دو ایک لقمے توڑتے ہی ایک دوست نے ہاتھ کھینچ لیا دوسرے نے پوچھا کیا بات ہے? جواب ملا کیا کھاؤں آپ کا کھانا تو روکھا پھیکا ہے۔"      ( ١٩٨٥ء، روشنی، ٧٥ )
٥ - پُھس پُھسا، بے مقصد۔
"یہ جامعہ ثبوت ہے اور سبق، البتہ بہت ہی کمزور سا ثبوت اور بہت ہی روکھا پھیکا سبق۔"      ( ١٩٤٦ء، تعلیمی خطبات، ٢٣٣ )