ادا[1]

( اَدا[1] )
{ اَدا }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مؤنث - واحد )
جمع   : اَدائیں [اَدا + ایں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : اَداؤں [اَدا + اوں (و مجہول)]
١ - نقل و حرکت کا عام انداز، روش، ڈھنگ۔
"دیوانگی میں بھی دانائی کی ادا موجود ہے۔"      ( ١٩٤٦ء، شیرانی، مقالات، ٢١٩ )
٢ - دل لبھانے والی حرکت یا اشارہ، انداز معشوقانہ، آن، ناز نخرہ، غمزہ (عموماً شاعرانہ نظم یا نثر میں مستعمل)
 دیکھیے کیا حشر ڈھائے ان کا انداز ستم شوخیوں سے کہہ رہی ہے کچھ ادا بگڑی ہوئی    ( ١٩٣٤ء رونق، کلام رونق، ١٨ )
٣ - (کسی چیز کی) پسندیدہ وضع، خوبی یا طرحداری کا انداز، دلکش پیرایہ۔
"باپ دادا کی کوئی ادا نہ رہی، وہی نتھو خیرا ان کے ہمجولی تھے۔"    ( ١٩٦٠ء، ہنگامے پر، ماہ نو، مئی۔ )
٤ - [ تصوف ]  تجلیاتِ اسمائی و صفائی میں بے کیفی ذات کا انعکاس جس کو خود بینی اور خود نمائی کہتے ہیں اور منشا اس خود بینی و خود نمائی کا 'فَاَحْیَبْتُ اَن اُعْرَف' (پس چاہا میں نے یہ کہ پہچانا جاؤں) ہے۔ (مصباح القعرف لارباب التصوف، 31)
  • grace
  • beauty;  elegance;  graceful manner or carriage;  charm
  • fascination;  blandishment;  amorous signs and gestures
  • coquetry