اسم مجرد ( مؤنث - واحد )
١ - نقل و حرکت کا عام انداز، روش، ڈھنگ۔
"دیوانگی میں بھی دانائی کی ادا موجود ہے۔"
( ١٩٤٦ء، شیرانی، مقالات، ٢١٩ )
٢ - دل لبھانے والی حرکت یا اشارہ، انداز معشوقانہ، آن، ناز نخرہ، غمزہ (عموماً شاعرانہ نظم یا نثر میں مستعمل)
دیکھیے کیا حشر ڈھائے ان کا انداز ستم شوخیوں سے کہہ رہی ہے کچھ ادا بگڑی ہوئی
( ١٩٣٤ء رونق، کلام رونق، ١٨ )
٣ - (کسی چیز کی) پسندیدہ وضع، خوبی یا طرحداری کا انداز، دلکش پیرایہ۔
"باپ دادا کی کوئی ادا نہ رہی، وہی نتھو خیرا ان کے ہمجولی تھے۔"
( ١٩٦٠ء، ہنگامے پر، ماہ نو، مئی۔ )
٤ - [ تصوف ] تجلیاتِ اسمائی و صفائی میں بے کیفی ذات کا انعکاس جس کو خود بینی اور خود نمائی کہتے ہیں اور منشا اس خود بینی و خود نمائی کا 'فَاَحْیَبْتُ اَن اُعْرَف' (پس چاہا میں نے یہ کہ پہچانا جاؤں) ہے۔ (مصباح القعرف لارباب التصوف، 31)