قاری

( قاری )
{ قا + ری }
( عربی )

تفصیلات


قرء  قاری

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں معنی و ساخت کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا اور بطور اسم نیز بطور صفت مستعمل ہے۔ پہلی بار ١٧٤٦ء کو "قصہ فغفور چین" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت نسبتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : قارِیہ [قا + رِیہ]
جمع   : قُرَا [قُرَا]
جمع ندائی   : قارِیو [قا + رِیو (و مجہول)]
جمع غیر ندائی   : قارِیوں [قا + رِیوں (و مجہول)]
١ - حروف کے مخارج کے موافق قرآن شریف پڑھنے والا، علم قرٔت سے واقف۔
"حضرت اُسَیْد . حضرت اُسید . حضرت معصب بن عمیر کے ہاتھ پر مدینے میں اسلام لائے، بڑے خوش الحان قاری تھے۔"      ( ١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٤٢٥:٣ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : قارِیہ [قا + رِیہ]
جمع   : قُرَا [قُرَا]
جمع ندائی   : قارِیو [قا + رِیو (و مجہول)]
جمع غیر ندائی   : قارِیوں [قا + رِیوں (و مجہول)]
١ - پڑھنے والا۔
"عجلت پسندی کے ان عالم گیر اثرات سے ادب کا قاری بھی لاتعلق نہیں رہ سکتا۔"      ( ١٩٨٤ء، سمندر، ٧ )