دست درازی

( دَسْت دَرازی )
{ دَسْت + دَرا + زی }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد 'دست' کے ساتھ فارسی زبان سے اسم صفت 'دراز' لگا کر آخر پر 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگائی گئی ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - (حرکات و سکنات و تیز زبان سے) گستاخی، بے باکی؛ چھیڑ چھاڑ؛ ہاتھ ڈالنا۔
"کوتاہ قامتی کے باوجود (مولانا سہا بھوبھالی) حسینوں پر بے ساختہ دست درازی ان کا محبوب مشغلہ تھا۔"      ( ١٩٧٠ء، یادوں کی بارات، ٤٦٣ )
٢ - زیادتی، زبردستی۔
"آم کھانا اس کے لیے ایسا ہی تھا کہ جیسے کسی پھل میں کیڑے پڑ جاتے ہیں اور آقا کے پر خیانت دست درازی تھی۔"      ( ١٩٨٦ء، آئینہ، ٢١٧ )
٣ - چھینا جھپٹی، لولٹنا کھسوٹنا، استحصال۔
 صبا کی دست درازی گلوں ہی تک تو نہ تھی ہمارے جیب و گربیاں بھی چاک ہوتے رہے
٤ - زیادتی۔
"آٹھ سال کے بعد بھی تم نے (ریں۔ ح نام ہے خط بھیجنے والی کا) اپنی ذات کو بار بار خطرے میں ڈالا بار بار تم پر دست درازی کی گئی۔"      ( ١٩٧٤ء، نفسیات ومابعدالنفسیات، ٣٥ )
٥ - مداخلت، تخریب۔
"روسی زبان میں ٹیگا بمعنی Virgin ایسے جنگلات کو کہتے ہیں جو انسان کی دست درازی سے محفوظ ہوں۔"      ( ١٩٦٤ء، معای و تجارتی جغرافیہ، ٢٦٦ )
٦ - عورت پر ہاتھ ڈالنا۔
"مدینہ کی گلیوں میں کوئی مسلمان بیوی جارہی تھی کسی یہودی نے اس پر دست درازی کی اس پر طیش کھا کر ایک مسلمان نے اس یہودی کو مار ڈالا۔"      ( ١٩١٩ء، جویاے حق، ٨٧:٢ )