دقیانوس

( دَقْیانُوس )
{ دَق + یا + نُوس }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے اسم جامد ہے۔ اردو میں ساخت اور معنی کے اعتبار سے بعینہ داخل ہوا اردو میں بطور اسم معرفہ اور نکرہ مستعمل ہے سب سے پہلے ١٧٧٨ء کو "گلزارارم" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
١ - فارس اور عرب کے ایک نہایت ظالم اور کافر بادشاہ کا نام جس کے عہد میں اصحاب کہف ہوئے۔
 صدی ہونے کو آئی بیسویں اور پاگل ہو تم تمہاری عادتیں ہیں عہد دقیانوس کی ساری      ( ١٩٣١ء، بہارستان، ٦١٧ )
٢ - [ مجازا ]  نہایت پرانا، اگلے وقتوں کا، پرانے زمانے کا، رجعت پسند، براچین (تحقیراً مستعمل)
"ایک مرد دقیانوس، بڈھے پھوس . پیڑ لگا رہے تھے۔"      ( ١٩٦٦ء، جنگ، ٢٥ جولائی، ٢ )