شوقیہ

( شَوقِیَّہ )
{ شَو (و لین) + قیْ + یَہ }
( عربی )

تفصیلات


شوق  شَوق  شَوقِیَّہ

عربی سے مشتق اسم 'شوق' کے ساتھ 'یہَ' بطور لاحقۂ صفت بڑھانے سے 'شوقیہ' بنا۔ اردو میں بطور صفت نیز بطور متعلقِ فعل استعمال ہوتا ہے۔ اور سب سے پہلے ١٨٠٢ء کو "باغ و بہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - جذباتی، محبت بھرا۔
 خطِ شوقیہ کی ہیں ڈاک میں آمد سنتے آجکل اپنے مصاحب تو یہ ہر کارے ہیں      ( ١٨٦١ء، کلیاتِ اختر، ٥٥٧ )
٢ - قوتِ محرکہ کی ایک شکل۔
"قوتِ محرکہ . کی بھی دوشکلیں ہیں اول باعثِ حرکت اسکا نام شوقیہ ہے . دوم فاعلِ حرکت۔"      ( ١٨٧٣ء، عقل و شعور، ٢٤٣ )
٣ - نیم ماہر (پیشہ ور کی ضد)، نوسکھیا، اتائی۔
"پیشہ ور (پروفیشنل) اور شوقیہ (امیچور) پراسٹیٹیوشن کے یہ اعداد۔"      ( ١٩٤١ء، تمدنِ اسلام، ٣٧ )
٤ - عاشقانہ۔
"شوقیہ شکاریوں کو ایک صحت مند تفریحی مشغلہ مہیا کرتے ہیں۔"      ( ١٩٧٣ء، جدید سائنس، ٣٠ )
٥ - پر اشتیاق، دوستانہ جذبات سے معمور۔
"بادشاہ عالی جاوے خلعت گراں بہا . شوقیہ خط جوہر گراں بہا دے کے ارشاد ہوا۔"      ( ١٨٦٢ء، شبستان سرور، ١ )
متعلق فعل
١ - محض دل بہلانے کے لیے مشغلے کے طور پر، شوق پورا کرنے کے لیے، برائے تغننِ طبع، تفریحِ طبع۔
"اردو کی کتاب شوقیہ بھی کوئی نہ پڑھے گا۔"      ( ١٩٨٨ء، قومی زبان، کراچی، اکتوبر، ٢٧ )