قطعہ

( قِطْعَہ )
{ قِط + عَہ }
( عربی )

تفصیلات


قطع  قِطْعَہ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں اصل حالت کے ساتھ داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : قِطْعے [قِط + عے]
جمع   : قِطْعے [قِط + عے]
جمع استثنائی   : قِطْعات [قِط + عات]
جمع غیر ندائی   : قِطْعوں [قِط + عوں (و مجہول)]
١ - کسی چیز کا ٹکڑا، پارہ، جزو۔
"قطعہ کے لغوی معنی ٹکڑے کے ہیں۔"      ( ١٩٨٥ء، کشاف تنقیدی اصطلاحات، ١٤٣ )
٢ - ملک یا اراضی کا حصہ، خطہ
 محل جن کے تھے قطعہ لو بہشت! وہ ہیں ریزہ ریزہ نہ کہنہ خشت      ( ١٩٣٢ء، بے نظیر شاہ، کلام بے نظیر، ٣٦٠ )
٣ - کاغذ کا پرزہ، پرچا، صفحہ۔
"قطعہ کے معنی ہیں ٹکڑا، پرزہ، پرچہ۔      ( ١٩٨٧ء، فنون، لاہور، نومبر، دسمبر، ١٨٤ )
٤ - وہ دو شعر یا اس سے زیادہ جو بامطلع یا بلا مطلع ہوں مگر مضمون میں ایک دوسرے سے متعلق ہو۔ مطلع کے سوا باقی غزل یا قصیدے کا ایک حصہ جو متعلق المضمون اور کم سے کم دو شعروں پر مشتعمل ہو۔
"یہ رباعی نہیں، یہ دو شعر کا ایک قطعہ ہے۔"      ( ١٩٨٧ء، غالب فکر و فن، ١١٥ )
٥ - خوش نویس کے قلم سے خوشخط لکھا ہوا خوبصورت لکھائی، عمدہ و نفیس تحریر۔
"نسخ و نستعلیق کی تختیاں اور کچھ کچھ قطعے بھی صاف کر چکی۔"      ( ١٨٧٤ء، مجالس النسا، ١٠٢:١ )
٦ - انداز، شکل، وضع۔
"جس سانچے میں جس قطعے کا چاہے بھر کر ٹکیاں بنالے۔"      ( ١٩٣٠ء، جامع الفنون، ٢٤:٢ )
  • a cutting
  • segment
  • division;  a fragment;  a detached portion;  a patch (of ground);  distiches corresponding in measure and rhyme
  • but without a matla