قل

( قُل )
{ قُل }
( عربی )

تفصیلات


قول  قُل

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب مشتق صیغۂ امر ہے۔ عربی سے اردو میں معنی و ساخت کے حوالے سے اصل حالت میں داخل ہوا اور اسم کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٨٣٨ء کو "چمنستان سخن" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر )
١ - کہہ، بول۔
"قلقل کس قسم کی آواز کا نام ہے . کبھی کسی مکتب میں میانجی نے کسی لونڈے سے . دو دفعہ قل کہہ کر کسی بات کا جواب مانگا ہو گا یاروں نے وہی دونوں قل ملا کر ایک لفظ تراش لیا۔"      ( اودھ پنچ، لکھنؤ، ٢١، ٤:١٩ )
٢ - خاتمہ، اختتام، موت۔
 فتح نادر خاں کو دی اللہ نے بچہ سقّا کا آخر قل ہوا      ( ١٩٢٩ء، بہارستان، ٣٤٠ )
٣ - [ مجازا (بطور معرفہ) ]  قرآن شریف کی چار سورتیں جو لفظ "قُل" سے شروع ہوتی ہیں یعنی سورۂ کافرون، سورہ اخلاص، سورۂ فلق اور سورۂ الناس۔ جو تیسویں پارے میں ہیں، انھیں چار قل بھی کہتے ہیں۔
 قسم ہے قلقل مینائے مے کی گر زاہد دو قُل سُنے تو کبھی چار قُل نہ رکھے یاد      ( ١٨٧٧ء، کلیات حق، ٢٩٥ )
٤ - فاتحہ، صوفی بزرگوں کے سالانہ فاتحہ کا دن، عرس، فاتحہ، سویم، تیجا، فاتحہ خوانی۔
"انہیں میں کسی مرنے والے کا قل ہے۔"      ( ١٩٢١ء، لخت جگر، ٤٣٣ )
١ - قل پڑھنا
ردِّ بلا کے لیے چار قل پڑھنا۔"اپنی حفاظت کے لیے چاروں قل پڑھ کر اپنے اوپر دم کیا کرتا تھا۔"      ( ١٩٨٧ء، حصار، ٥٠ )
ایصال ثواب کے لیے چار قل پڑھنا، فاتحہ خوانی کرنا۔ جیتے جی ہم کو تم سے تھا اخلاص پڑھ کے قل تو کبھی ذرا بخشو      ( ١٨٢٦ء، دیوان معروف، ١١٢ )
٢ - قل ہو اللہ پڑھنا
سورہ اخلاص پڑھنا۔ (جامع اللغات)
پیٹ میں قراقر ہونا، نہایت بھوک لگنا (آنتوں کا)"اگر کسی کو ترس آگیا تو کچھ دے دیتا ورنہ بھوک سے آنتیں قل ہو اللہ پڑھتی رہتیں۔"      ( ١٩٥٩ء، نقش آخر، ٧٦ )
  • the first word of suras 112 & 113 and 114 of the Qor'an
  • and used to denote one and all of these suras or chapters;  reading any one or all of the above-mentioned suras