طلاق جبری

( طَلاقِ جَبْری )
{ طَلا + قے + جَب + ری }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے مشتق اسم 'طلاق' کے آخر پر کسرۂ صفت لگانے کے بعد عربی ہی سے مشتق اسم 'جبر' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ نسبت لگانے سے مرکب 'طلاقِ جبری' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٩١٧ء کو "حیات مالک" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم معرفہ ( مؤنث - واحد )
١ - [ فقہ ]  وہ طلاق جو جبراً دی جائے، یہ واقع نہیں ہوتی۔
"میں مالک بن انس ہوں، فتویٰ دیتا ہوں کہ طلاق جبری درست نہیں۔"      ( ١٩١٧ء، حیات مالک، ٥٧ )