گجر

( گَجَر )
{ گَجَر }
( سنسکرت )

تفصیلات


اصلاً سنسکرت زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں سنسکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٤١ء کو شاکر ناجی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - گھڑیال، بڑا گھنٹہ۔
"اعلان وقت کے مختلف ذرائع تھے کہیں نقارہ بجایا جاتا کہیں گھنٹہ کہیں گجر اور کہیں قرنا پھونکتے تھے۔"      ( ١٩٦٤ء، غالب کون ہے، ١٥١ )
٢ - پہر کا باجا، چار، آٹھ اور بارہ بجے گھنٹوں کا مکرر بجنا پہلے زمانے میں صرف صبح کے وقت گجر بجایا جاتا تھا اب ہر 4، 8، 12 گھنٹوں پر بجایا جاتا ہے۔
"دلی کے سیلانی تو بھیگتی رات کے ساتھ پھریری لیتے ہیں اور عقیدت مند بارہ کے گجر کے بعد جاتے ہیں۔"      ( ١٩٨٤ء، زمیں اور فلک اور، ٣٢ )
٣ - [ مجازا ]  صبح صادق کا وقت۔
"سرخروئی سے آرام کیا گجر سے پہلے جن نے بدرالدین کو دلہن کے پہلو سے اوٹھا لیا۔"      ( ١٨٦٢ء، شبستان سرور، ١١٢:١ )
٤ - الارم، بیدار کرنے والی گھنٹی۔ (فرہنگ آصفیہ، نوراللغات)
  • The chimes rung at the expiration of a pahar or watch of the day or night (i.e. after striking the hours of 4
  • 8 and 12;  but the term is sometimes restricted to those rung at the close of the fourth watch
  • the word pahar being more commonly used for the middle chimes)