فعل لازم
١ - سطح سے نمایاں ہونا آس پاس کی نسبت اٹھا ہونا یا پھولا ہونا۔
"آنحضرتۖ کی پشت پر جو مہر نبوت تھی، ابھری ہوئی تھی"۔
( ١٩١٤ء، سیرۃ النبی، ٣٧٩:٢ )
٢ - پھولنا، تننا۔
قلہء کوہ جو ابھرا ہے تو اک شان کے ساتھ کھڈ جو گہرائی میں اترا ہے تو اک آن کے ساتھ
( ١٩٠٦ء، کلام نیرنگ، ٤٠ )
٣ - بڑھنا، پنپنا، افزائش یا نشوونما پانا۔
"اس میں شعوری تنقید کا مادہ ابھرتا ہے۔"
( ١٩٣٧ء، تعلیمی خطبات، ٤٢ )
٤ - سطح پر آنا، سر نکالنا۔
دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی افق سے آفتاب ابھرا گیا دور گراں خوابی
( ١٩٢٤ء، بانگ درا، ٣٠٣ )
٥ - ابھارا لینا، ڈوب کر ترنا۔
محیط عشق سے حاصل تلک اللہ پہنچاوے بٹھائے دیتی ہے تہ کو قضا جوں جوں ابھرتے ہیں ابھرنے دیتی نہ یاد شراب پھر مجھ کو شراب چھوڑ کے غرق شراب ہو جاتا
( ١٨٣٢ء، دیوان رند، ٩٢:١ )( ١٩٤٦ء، جلیل (مانک پوری)، روح سخن، ٨ )
٦ - اچکنا، خط کشیدہ ہونا، سر یا گردن کو اونچا کرنا۔
یہ عذر میں نہیں سنتا کہ قد ہے چھوٹا سا اڑاؤ تیغ سے گردن ذرا ابھر کے سہی
( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، دیوان، ١٦٥ )
٧ - عود کرنا، ہرا ہونا(مرض چوٹ وغیرہ کا)
"راستے میں ہوا جو چلی تو چوٹ نے رنگ دکھایا ابھری اور ان کو بہت ہی پریشان کیا۔"
( ١٨٩٢ء، خدائی فوجدار، ٢٧:١ )
٨ - دبی ہوئی یا پست حالت سے نکلنا، سنبھلنا، ترقی کرنا، سربلند ہونا۔
"یہ خیال ان کو پنپنے یا ابھرنے نہیں دیتا۔"
( ١٨٩٩ء رویاے صادقہ، ٦٩ )
٩ - غائب ہونا، اڑ جانا، چلتا بننا۔
حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے اور ہوں گے تری محفل سے ابھرنے والے
( ١٨٧٨ء، گلزار داغ، ٢٥٤ )
١٠ - نمایاں ہونا، ظاہر ہونا۔
داغ دل، داغ جگر نقش جفا، نقش وفا نہ مٹائے سے مٹیں گے یہ ابھرنے والے
( ١٩٠٥ء، داغ، انتخاب، ١٨٨ )
١١ - جوش میں آنا، زور کرنا۔
تھا اس کے تخیل کا فسوں جس نے سکھایا سو سال کے سوئے ہوئے جذبوں کو ابھرنا
( ١٩٤١ء، چمنستان، ١٧٧ )
١٢ - اترانا، اکڑنا، تننا، غرور کرنا۔
جوکہ اعلٰی تر بنا آخر ہوا ادنٰی تریں جو ذرا ابھرا یہاں اک دن ہوا وہ تہ نشیں
( ١٩٠٢ء، جذبات نادر، ٥٧،١ )
١٣ - وجود میں آنا، صورت پکڑنا۔
شیخ صاحب چل بسے کالج کے لوگ ابھرے ہیں اب اونٹ رخصت ہو گئے پولو کے گھوڑے رہ گئے
( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ٤٣٤:١ )
١٤ - آمادہ ہونا۔
"دل فی الجملہ مسائل اصل خیر کا رہتا ہے تو دوسری خیرات پر بھی وقت پر ابھر کھڑا ہوتا ہے"۔
( ١٨٦٥ء مذاق العارفین، ٤، ٤٩١ )
١٥ - (اٹکی یا دبی ہوئی) چیز کا نکلنا جگہ سے جنبش کرنا)۔
"بہت زور کیا مگر دیوار سے کیل نہ ابھری"
( ١٩٢٤ء، نوراللغات، ١، ٢٣٠ )
١٦ - جوان ہونا، قد نکالنا۔
ابھی کل تک تھے کیسے بھولے بھالے ذرا ابھرے ہیں آفت ڈھا رہے ہیں
( ١٩١٠ء، تاج سخن، جلیل (مانک پوری)، ١٥٤ )