گدگدانا

( گُدْگُدانا )
{ گُد + گُدا + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


گودا  گُد  گُدْگُدانا

سنسکرت سے ماخوذ اصل لفظ 'گودا' کی تخفیف 'گد' کی تکرار سے اردو زبان میں 'گدگد' بنا اور پھر اردو زبان میں فعل متعدی بنانے کے لیے 'انا' بطور علامت مصدر لگنے سے 'گدگدانا' بنا۔ اردو میں فعل متعدی اور گا ہے بطور فعل لازم استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٩٨ء کو "دیوان سوز" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - [ کنایۃ ]  جوش مارنا، ترنگ میں آنا۔
 تمنائیں مزے پر ہیں ارادے گدگداتے ہیں خدا کا نام لے پھر بتوں سے دل لگاتے ہیں      ( ١٩٠١ء، ثمر فصاحت، ٧٩ )
٢ - بے محل ہنسی کے قابل خیال پیدا ہونا۔ (مہذب اللغات)
فعل متعدی
١ - انگلیوں سے کسی شخص کے جسم کے ایسے حصوں کو سہلانا یا آہستہ آہستہ چھونا کہ اسے ہنسی آجائے۔
"کسی نے پیچھے سے میری کمر کے دونوں طرف اپنی انگلیاں چھبوئیں اور شاید گدگدایا بھی۔"      ( ١٩٨٩ء، افکار، کراچی، فروری، ٤٧ )
٢ - [ کنایۃ ]  شوق دلانا، ابھارنا، آمادہ کرنا، اکسانا۔
"ہر باب میں انشائیہ کے کسی نہ کسی پہلو کو گدگدایا گیا ہے۔"      ( ١٩٨٧ء، فنون، لاہور، نومبر، ٢٢٠ )
٣ - سواری کی حالت میں گھوڑے کے پیٹ کو پاؤں سے حرکت دینا کہ وہ جست و خیز کرے، گھوڑے کو جست و خیز پر اکسانے کے لیے سوار کا اس کے پیٹ کو پاؤں سے سہلانا۔
 رہوار کو اپنے گدگدایا آہو کو خیال جست آیا      ( ١٨٩٢ء، دل و جان، ٤٣ )