دل کشی

( دِل کَشی )
{ دِل + کَشی }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد 'دل' کے ساتھ 'کشیدن' مصدر سے فعل امر 'کش' بطور اسم فاعل لگا کر آخر پر'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگائی گئی ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٠٧ء کو ولی کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت
١ - کشش، جاذبیت، خوشنمائی۔
"یہ گیت بیک وقت سادہ، غنائیہ، مہمل، سب کچھ تھے لیکن ان میں دل کشی تھی۔"      ( ١٩٨٢ء، انسانی تماشا، ١١ )
٢ - دل لبھانے کا عمل۔
 دل داشت کر سکے تو یہ دل لجا اپس سنگ گر دل کشی پہ دل ہے تو کیا ہے دلکشی سوں      ( ١٧٠٧ء، ولی، کلیات، ١٤٤ )