آوا

( آوا )
{ آ + وا }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اسم جامد ہے۔ سنسکرت میں 'آ پاک' کہتے ہیں ممکن ہے کہ اس لفظ کا کوئی تعلق سنسکرت سے بھی ہو۔ سب سے پہلے اردو میں ١٦٦٥ء کو "پھول بن" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر )
واحد غیر ندائی   : آوے [آ + وے]
جمع   : آوے [آ + وے]
جمع غیر ندائی   : آووں [آ + ووں (واؤ مجہول)]
١ - کمھار کی بھٹی جس میں کچے برتن پکائے جاتے ہیں۔
 آوا بنتا ہے قبل سب کے برتن بنتے ہیں اس کے پیچھے      ( ١٩٢٧ء، تنظیم الحیات، ٣٢ )
٢ - اینٹیں پکانے کا بھٹا، پژاوہ۔
 بہت سی جمع کر لو گھر میں اینٹیں چڑھا رکھا ہے میں نے بھی اک آوا      ( ١٩٣١ء، بہارستان، ظفر علی خاں، ٤٧٩ )
٣ - چولھے کے سامنے ہانڈی وغیرہ کو آنچ لگانے کے لیے عارضی طور پر راکھ اور آگ سے بنایا ہوا گھیرا، راہا۔
"دودھ آوے میں رکھا اونٹ رہا تھا۔"      ( خواجہ محمد شفیع، ابلیس، ١٥ )
١ - آوے کا آوا بگڑنا
پورے خاندان یا جتھے وغیرہ کا کسی برائی میں یکساں مبتلا ہونا۔ نہیں کوئی کرتا مرض کا مداوا غرض یہ کہ بگڑا ہے آوے کا آوا      ( ١٩٤١ء، برق و باراں، ٥٨ )
٢ - آوے کی طرح بٹھانا
تباہ کر دینا، کسی کام کا نہ رکھنا۔'بیٹے کی علالت اور سوء مزاج نے . سرسید کو آوے کی طرح بٹھا دیا۔"      ( ١٨٩٩ء، حیات جاوید، ٣٠٣ )
٣ - آہ اٹھانا
آہ اٹھنا کا تعدیہ ہے کبھی پھر برق سے آہیں اٹھا کر کرے تھا خاک صحرا کو جلا کر      ( ١٨٨١ء، مثنوی نلدمن، ٢٧ )
٤ - آوا اتارنا
پکنے کے بعد برتنوں یا اینٹوں کا آوے میں سے نکلنا۔ (ماخوذ : امیراللغات، ٢٩:١)
٥ - آوا بگڑنا
 بنا سکیں گے نہ کچھ اس کا مالوی جی بھی ہزار سال سے بگڑا ہوا جو آوا ہو بنا سکیں گے نہ کچھ اس کا مالوی جی بھی ہزار سال سے بگڑا ہوا جو آوا ہو      ( ١٩٣٦ء، چمنستان، ظفر علی خان، ٥٩ )
٦ - آوا چڑھانا
پکانے کے واسطے برتنوں یا اینٹوں کو آوے میں چننا۔ بہت سی جمع کر لو گھر میں اینٹیں چڑھا رکھا ہے میں نے بھی اک آوا      ( ١٩٣١ء، بہارستان، ظفر علی خان، ٤٧٩ )
  • Potter's kiln;  kiln;  furnace