قبیلہ

( قَبِیلَہ )
{ قَبی + لَہ }
( عربی )

تفصیلات


قبل  قَبِیل  قَبِیلَہ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٢٥ء کو "سیف الملوک و بدیع الجمال" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم ظرف مکاں ( مذکر، مؤنث - واحد )
واحد غیر ندائی   : قَبِیلے [قَبی + لے]
جمع   : قَبِلیے [قَبی + لے]
جمع استثنائی   : قَبائل [قَبا + اِل]
جمع غیر ندائی   : قَبِیلوں [قَبی + لوں (واؤ مجہول)]
١ - ایک جد کی اولاد، خاندان ایک نسل کے آدمیوں کی جماعت۔
"ان قبیلوں کو آپس میں دوست کر دیا جو ایک دوسرے کو فنا اور برباد کرنے پر آمادہ تھے۔"      ( ١٩٨٤ء، مقاصد و مسائل پاکستان، ١٣٢ )
٢ - گروہ، جتھا۔
"اطہر نفیس اور ان کے قبیلے کے دیگر شعرا کا کلام کا اور اک ہمارے دور کے . نمائندہ فرد کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔"      ( ١٩٧٥ء، توازن، ٢٥٤ )
٣ - نوع، جنس، شے۔
"جس کیفیت کی میں تعبیر کر رہا ہوں یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ تصور یا تصدیق کے قبیلے کی یہ کوئی چیز ہے۔"      ( ١٩٥٦ء، مناظر احسن گیلانی، عبقات، ٣٤٨ )
٤ - بیوی، جورو۔
"ڈھائی بوتل روز کا تو میرے یہاں خرچ ہے لالہ ایک میں پیتا ہوں ایک قبیلہ چڑھاتی ہیں۔"      ( ١٨٩٤ء، ہشو، ٨ )
  • tribe
  • clan;  family;  wife