شیخ چلی

( شَیخ چِلّی )
{ شَیخ (ی لین) + چِل + لی }

تفصیلات


عربی سے مشتق اسم 'شیخ' کے ساتھ سنسکرت سے ماخوذ اسم علم 'چلی' ملنے سے مرکب نسبتی بنا۔ اردو میں بطور اسم نیز بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ اور سب سے پہلے ١٨١٠ء کو "کلیاتِ میر" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - [ مجازا ]  احمق، مسخرا، خیالی دنیا میں رہنے والا۔
"خان صاحب جو . اپنی زندگی شیخ چلّی کی حیثیت سے بسر کر رہے ہیں، امراو رؤسا حکام اور انگریز ان کو محض ہنسی اڑانے کو اپنے جلسوں میں بلاتے ہیں۔"      ( ١٩٢٩ء، تمغۂ شیطانی، ٨٤ )
اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
١ - ایک بزرگ جن کا مقبرہ تھا نیسر (ضلع کرنال بھارت) میں ہے جو چلّہ کشی کے بہت شائق تھے اس لیے یہ نام ہوا۔
 ایک چھپر ہے شہر دلی کا جیسے روضہ ہو شیخ چلی کا      ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ١٠١١ )
٢ - ایک روایتی احمق جس کی بیوقوفیوں کے قصے لوگوں نے گھڑ رکھے ہیں۔
"شیخ چلی کی سی ناامیدی و امید کی حالت . برابر کم کرتا جاتا تھا۔"      ( ١٩٨٥ء، حیاتِ جوہر، ٨٠ )