گرجنا

( گَرَجْنا )
{ گَرَج + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


اصلاً سنسکرت زبان کا لفظ ہے اور بطور فعل مستعمل ہے۔ اردو میں سنسکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور فعل استعمال ہوتا ہے۔ ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - تیز ہوا کی رگڑ سے بادلوں کا بجلی کے ساتھ غلغلہ پیدا کرنا، کڑکا کرنا، کڑکنا۔
"اتنے میں تیز ہوا چلنے لگی ابر گرجنے لگے۔"      ( ١٦٧٥ء، تاری، ادب اردو، ٢، ٧٨٨:٢ )
٢ - (سمندر کی) طوفانی موجوں کا کڑکنا، آواز دینا۔
"پور سمندر آسمان سے مل کر گرجنے، چمکنے اور کڑکنے لگا۔"      ( ١٩٨٦ء، نیم رخ، ٦٩ )
٣ - چلا کر بولنا، کڑک کر بولنا۔
"میری نے ٹھنڈے لہجے میں بات شروع کی، پھر ایک دم گرجنے لگی۔"      ( ١٩٨٨ء، نشیب، ٣٦٠ )
٤ - شیر کا دہاڑنا، ہاتھی کا چنگھاڑنا۔
"جب شیر اور شیرنی دونوں ساتھ ہوتے ہیں تو ماند سے نکلتے ہی پہلے شیرنی گرجتی ہے اور پھر شیر۔"      ( ١٩٣٢ء، عالم حیوانی، ٣٢٩ )
٥ - ساز یا نغمے کا گونجنا۔
 وہ ہند میں گونجنا تو یہ آفاق میں گرجا ٹیگور کا راگ اور ہے اور نغمہ مرا اور      ( ١٩٤٠ء، چمنستان، ٢٦٢ )
٦ - تڑخنا، بال آنا (موتی وغیرہ میں)۔
"یہ زمرد تھا تو اچھا مگر ذرا گرج گیا یعنی اس میں بال پڑ گیا۔"      ( ١٩٣٣ء، مغل اور اردو، ٩٣ )
٧ - غصہ ہونا، خفا ہونا (بہ کے ساتھ)۔
"چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مولانا کوثر نیازی پر غیر معمولی طور پر گرجے برسے تھے۔"      ( ١٩٨٧ء، اور لائن کٹ گئی، ١٣٦ )