ادعا

( اِدِّعا )
{ اِد + دِعا (کسرہ د مجہول) }
( عربی )

تفصیلات


دعو  اِدِّعا

عربی زبان سے اسم مشتق ہے ثلاثی مزید فیہ کے باب افتعال سے مصدر'اِدْتِعاء' ہے۔ جس میں 'د' اور 'ت' کا قریب المخرج ہونے کی وجہ سے ادغام ہو گیا اور آخری 'ء' اردو میں اس کی آواز نہ ہونے کی وجہ محذوف ہو گیا۔ اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ ١٧١٨ء کو "دیوان آبرو" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم حاصل مصدر ( مذکر - واحد )
١ - دعویٰ، دعوے کا وقوع یا عمل (تقریراً یا تحریراً) دعویٰ کرنا، دعویدار یا مدعی ہونا۔
"اس ادعا کو مثنوی کے ژوف میں ناظرین نہیں مان سکیں گے۔"      ( ١٩٣٩ء، افسانہ پدمنی، ٢٦ )
٢ - تحکم، غرور، مبالغہ، کذب، شیخی یا غلط فہمی پر مبنی گفتگو، دعویٰ بلا دلیل
"جھوٹ، مبالغہ . خوشامد، ادعاے بے معنی . اسی قسم کی باتیں ہماری شاعری کے قوام میں شامل ہو گئی ہیں۔"      ( ١٨٩٢ء، مقدمہ دیوان حالی، ٩٣ )
٣ - [ شاد ]  استدعا۔
"امر قبول کر کے مع اپنے وزیر کے اس جوگی کے پاس گیا اور ادعا جوگی کی کی۔"      ( ١٨٦٤ء، تحقیقات چشتی، ٧٧٢ )
  • claiming (a thing)
  • demanding as a right;  claim;  pretension