شیر مادر

( شِیرِ مادَر )
{ شی + رے + ما + دَر }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے مرکبِ اضافی ہے۔ فارسی میں اسم 'شیر' بطور مضاف کے ساتھ کسرۂ اضافت لگا کر فارسی اسم 'مادر' بطور مضاف الیہ ملنے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم نیز گا ہے بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٦٥ء کو "علی نامہ" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - ماں کا دودھ۔
"انہوں نے اپنے بیٹے کو دبا ہوا پاکے سنائیں وہ شیرِ مادر کی طرح غٹ غٹ پی کے رہ گئے۔"      ( ١٩٠٠ء، خورشید بہو، ٢٧ )
صفت نسبتی
١ - [ کنایۃ ]  حلال، مباح، جائز، چیز حلال و مباح، ماں کے دودھ کی طرح حلال۔
"ادیبوں نے شاہد صاحب سے ہزاروں روپے پیشگی لیے اور وہ اسے شیرِ مادر کی طرح ہضم کر گئے۔"      ( ١٩٨٤ء، کیا قافلہ جاتا ہے، ١٠٧ )
٢ - مرغوب، مانوس بات یا کلمہ جو زبان سے بار بار یا بے تکلف نکلے۔
"انہیں مطلق احساس نہ تھا کہ کیا . بول رہے ہیں . کیونکہ ویسٹ پاکستان تو اب ہمارے لیے شیرِ مادر ہو گیا ہے۔"      ( ١٩٦٧ء، اردو نامہ، کراچی، ٥:٢٩ )