جلالی

( جَلالی )
{ جَلا + لی }
( عربی )

تفصیلات


جلل  جَلال  جَلالی

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب مشتق اسم 'جلال' اردو میں بطور اسم مستعمل ہے اس کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ نسبت لگنے سے 'جلالی' بنا۔ اردو میں بطور اسم صفت اور گا ہے بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٥٦٤ء میں حسن شوقی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : جَلالِیوں [جَلا + لِیوں (واؤ مجہول)]
١ - جلال سے منسوب یا متعلق، جلال والا، بزرگی والا۔
 ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور      ( ١٩١١ء، بانگ درا، ١٦٥ )
٢ - دعا، عمل یا تعویز جس میں شان قہاری ظاہر ہونے کی خواہش ہو۔
 ہنسا کے بجلی کو ابر رویا جگا کے سورج کو چاند سویا یہ نقش ہستی ہے اعتباری کہیں جلالی کہیں جمالی    ( ١٩٣١ء، بہارستان، ٥٨١ )
٣ - وہ صفت الٰہی جس میں شان غضب کا اظہار ہو، (جمالی کی ضد، جیسے قہاری)۔
"حروف مقصود بایکدیگر ہیں . اگر مقصود جمالی ہو تو عروج ماہ سے . اگر جلالی ہے تو نزول ماہ یا . یا قمر در عقرب میں شروع کرے۔"    ( ١٩٥١ء، فقاح الجفر، ٤١ )
٤ - [ تصوف ]  درویشوں کے ایک طریقے اور سلسلے کا نام جو سید جلال الدین بخاری سے منسوب ہے، جلالیہ۔
"جلالیوں میں سے انقرہ کے قلندر نے . اس شہر کا محاصرہ کر لیا۔"      ( ١٩٦٨ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٤٦١:٣ )
٥ - شمسی مہینوں کے نام جو جلال الدین ملک شاہ سلجوقی کی تاریخ تخت نشینی سے منسوب کئے جاتے ہیں۔ (فرہنگ آصفیہ؛ نوراللغات)
٦ - بعض کے نزدیک ماہ فرور دین سے مراد ہے۔
 چمن میں خوش رنگ گل یہاں ہے جوش خون ناسخ جلال اپنا زیادہ کیوں نہو ماہ جلالی ہے    ( ١٨١٦ء، دیوان ناسخ، ١٣٠:١ )
٧ - ماہ الٰہی جو جلال الدین محمد اکبر بادشاہ کی تاریخ سے منسوب ہے اور تحویل آفتاب کا زمانہ ہے۔ (فرہنگ آصفیہ)
٨ - غضبناک، خطرناک، خوفناک، ہیبت ناک، پرحشمت۔
"آپ کے باب دادا اور پردادا جس جلالی کام کو چھیڑ گئے تھے آپ نے بڑی خوبی سے انجام دیا۔"      ( ١٩١٧ء، مضامین شرر،١: ١٤٥:٣ )
اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
١ - عمدہ قسم کے گہیوں کے مختلف اقسام میں سے ایک جس کا رنگ سرخی مائل اور دانہ لمبا ہوتا ہے، اس سے اکثر روز نکالا جاتا ہے۔
"جلالی . دکھن کے کسی زمین دار یا جاگیر دار کے نام موسوم ہو گیا ہے۔"      ( ١٩٤٢ء، اصطلاحات پیشہ وراں، ٤٨:٦ )