ادھڑنا

( اُدَھڑْنا )
{ اُدَھڑ + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے دو الفاظ 'اد' + 'دھرن' سے مرکب لفظ سے ماخوذ ہے۔ اردو میں سب سے پہلے "دیوان ہاشمی" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل لازم
١ - سلائی، بخیے یا سیون کا کھلنا، ٹانکے ٹوٹنا (سلے کپڑے یا رخم کے)
 مرے رشتے کا رشتہ کاٹتے مقراض بن بن کے نہ ادھڑیں گے مگر ٹانکے چولی اور دامن کے      ( ١٩٢١ء، گورکھ دھندا، ٤٧ )
٢ - سطح کے بالائی پرت کا اکھڑنا۔
"محراب کے نیچے کی مرمت ہوتے کبھی نہیں دیکھی گئی، اندر سے پلستر جگہ سے ادھڑ گیا ہے۔"    ( کالا سورج، ٢٦٤ )
٣ - پوشش کھلنا، پٹاؤ الگ ہونا۔
"چھت ادھڑ گئی۔"    ( ١٨٩٢ء، امیراللغات، ١٠٩:٢ )
٤ - جسم پر سے بال یا کھال کا جدا ہونا۔
 گئے ہم جو ان کے گلے لپٹ تو چمٹ کے سینے سے بولے جھٹ کروں صدقے ایسی چمٹ کو ہٹ، مری چھاتی جس سے ادھڑ گئی      ( ١٨١٨ء، انشا، کلیات، ١٤٨ )
٥ - [ مجازا ]  (کسی امر یا نظام وغیرہ کا) برقرار نہ رہنا، فسخ ہونا، ٹوٹنا، القط ہونا۔
"نکاح ادھرنا"      دم میں سپاہ شام کی قسمت بگڑ گئی سب بخیے ڈھیلے ہو گئے، نخوت ادھڑ گئی      ( ١٨١٨ء، فرہنگ آصفیہ، ١٣٦:١ )( ١٩٦٨ء، منظور اے پوری، مرثیہ (ق)، ١٣ )
٦ - تباہ حال ہونا، مفلس ہونا۔
"غریب عورت تو ادھڑ گئی اور اس کا تو ہمیشہ ہی کے لیے ستیاناس ہو گیا۔
  • to be taken out or off;  to be or become unrolled
  • unravelled
  • untwisted
  • unwound;  to be torn off
  • be laid or ripped open
  • be peeled
  • flayed (the skin);  to open out
  • unravel
  • come undone (sewing);  to be untied
  • be separated
  • be divorced;  to be ruined or destroyed;  to be spent
  • exhausted