گرما گرم

( گَرْما گَرْم )
{ گَر + ما + گَرْم }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'گرما' کے ساتھ فارسی صفت گرم لگانے سے مرکب 'گرما گرم' بنا۔ اردو میں بطور اسم صفت اور متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٨١ء کو "جنگ نامۂ سیوک" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - بہت گرم، بھاپ اٹھتا ہوا، تتاتتا، جلتا ہوا، تازہ بتازہ گرم کیا ہوا۔
"مچھلی کے پھڑپھڑاتے گرما گرم کباب، پسندے، کلیجی کے کباب . سجے سجائے موجودہ۔"      ( ١٩٨٨ء، دبستان لکھنو کے داستانی ادب کا ارتقاء، ١٧١ )
٢ - پرزور، پرجوش، زوردار۔
"وہ اداریہ . بھی لکھتے حالات حاضرہ پر ایک دو گرما گرم تازہ ترین نظمیں بھی لکھتے۔"      ( ١٩٨٩ء، جنہیں میں نے دیکھا، ١٢٣ )
٣ - برجستہ، تڑاپ پڑاق۔
"میں ان سے کمال ناراض ہوا، آج کچھ طبیعت اچھی نہیں ورنہ گرما گرم جواب جاتا۔"      ( ١٨٨١ء، انشائے داغ، ٤٩ )
٤ - بذلہ سنج، لطیفہ گو، خوش طبع۔
 داغ اک آدمی ہے گرما گرم خوش بہت ہوں گے جب ملیں گے آپ      ( ١٨٧٨ء، گلزار داغ، ٧٢ )
٥ - شوخ، چلبلا۔
"محسن علی کی لڑکی بوئن اچھی صورت شکل کی تھی، جامع زیب شوخ گرما گرم، چمپئی رنگ بڑی بڑی خوشنما آنکھیں سیاہ بھنور پتلی۔"      ( ١٩٢٤ء، اختری بیگم، ١٤٥ )
٦ - پرسوز، رقت آمیز، پراثر۔
 جو دل جلے ہیں انہیں کا سخن ہے گرما گرم مزا ہے سیخ پہ جب تک کباب رہتا ہے      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ١٩٢:٢ )
متعلق فعل
١ - شباب کو پہنچا ہوا، جوش میں آیا ہوا۔
"ابھی ہنگامہ کارزار گرما گرم تھا اور نرخ بازار قضا کا نرم تھا۔"      ( ١٨٥٥ء، غزوات حیدری، ١١٩ )