ادیب

( اَدِیْب )
{ اَدِیْب }
( عربی )

تفصیلات


ادب  اَدَب  اَدِیْب

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مجرد کے باب سے اسم فاعل ہے اردو میں بطور اسم صفت مستعمل۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٨٠ء کو سودا کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : اَدِیبَہ [اَدی + بَہ]
جمع   : اُدَبا [اُدَبا]
جمع غیر ندائی   : اَدِیْبوں [اَدِی + بوں (و مجہول)]
١ - علم ادب و لغت کا عالم، لغوی، زباں داں، نظم و نثر اور ان کے متعلقات کا ماہر۔
"ان کے والد اور دادا دونوں فارسی اور اردو کے پرگو شاعر اور ادیب تھے۔"      ( ١٩٧٤ء، اردو نصاب لازمی (بارہویں جماعت کے لیے) ١٣٢ )
٢ - معلم، استاد اور اتالیق، ادب اور تہذیب سکھانے والا۔
"داد بھائی کا رتبہ ایک ادیب کا ہے جو . فرمانروایانِ ملک کو بھی سبق دے سکتے ہیں۔"      ( ١٩١٧ء، گوکھلے کی تقریریں، ٢٣٧ )
٣ - انشا پرداز، ادبی مضامین اور مقالے لکھنے والا، نثرنگار۔
"یہ آج کل وہ مروج طرز نقد ہے جس میں ناقد، ادیب و شاعر سے بے نیاز ہو کر تقریباً اپنی طرف متوجہ رہتا ہے۔"      ( ١٩٣٢ء، سیف و سبو (مقدمہ)، ٧ )
٤ - [ تصوف ]  عارفِ ربانی۔ (مصباح التعرف لارباب التصوف، 29)
  • polite
  • courteous