ریچھ

( رِیچھ )
{ رِیچھ }
( پراکرت )

تفصیلات


رچھ  رِیچھ

پراکرت زبان کے لفظ 'رچھ' سے ماخوذ ہے۔ اردو میں اپنے اصل مفہوم کے ساتھ عربی رسم الخط میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ یہ گمان بھی کیا جاتا ہے کہ سنسکرت زبان کے لفظ 'رکش' سے اخذ کیا گیا مگر اغلب یہی ہے کہ پراکرت سے ماخوذ ہے تحریراً سب سے پہلے ١٦٨٢ء میں "رضوان شاہ و روح افزا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : رِیْچھنی [رِیچھ + نی]
جمع غیر ندائی   : رِیْچھوں [ری + چھوں (و مجہول)]
١ - بھالو، خرس
 اپنی اک سال کی کمائی دے دوں یہ ریچھ کی نقل پراگر ہو طیّار      ( ١٩٤٧ء، سنبل و سلاسل، ١٨٣ )
٢ - [ مجازا ]  جواریوں اور سٹہ بازوں کی اصطلاح میں جو بازی بد کے سرمایہ دینا منظور کرے۔
"ریچھ تو وہ کہلاتا ہے کہ آئندہ کسی تاریخ مقررہ پر سرمایہ دینا منظور کرتا ہے . سانڈ اسے کہتے ہیں جو روپیہ لینا منظور کرتا ہے۔"      ( ١٩٠٧ء، نپولینِ اعظم (ترجمہ)، ٤٣٥:٣ )
  • a bear