اذیت

( اَذِیّت )
{ اَذِی + یَت }
( عربی )

تفصیلات


اذی  اِیْذا  اَذِیّت

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مجرد کے باب سے مصدر اذیٰ ہے جو اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ فارسی قاعدے کے تحت 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگائی گئی۔ سب سے پہلے ١٦٩٣ء کو "وفات نامہ بی بی فاطمہ (ق)" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : اَذِیَّتیں [اَذی + یَتیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : اَذِیَّتوں [اَذی + یَتوں (و مجہول)]
١ - جسمانی تکلیف، دکھ۔
"میدان جنگ میں شمار سے خارج آدمی ہر ہر طرح کچل کر اور اذیت جھیل کر مرے۔"      ( ١٩٠٧ء، نپولین اعظم،۔ ٥:١ )
٢ - ذہنی کوفت، روحانی صدمہ۔
"اس حادثے سے سرسید کو سخت اذیت اور رنج و ملال پہنچا۔"      ( ١٩٣٥ء، چند ہم عصر، ٢٨٣ )